منزل ملی گی بے شک بھٹک کر ہی سہی

گمراہ تو وہ ہیں جو گھر سے نکلے ہی نہیں


ہر روز گر کر بھی مکمل کڑھے ہیں

اۓ زندگی دیکھ میرے حوصلے تجھ سے بڑے ہیں


کتنا عجیب ہے یہ فلسفہ زندگی کا

دوریاں سکھاتی ہیں کہ نزدیکیاں کیا ہوتی ہیں


خواہشوں کا قیدی ہیں

مجھے حقیقتیں سزا دیتی ہیں

آسان چیزوں کا شوق نہیں

مجھے مشکلیں مزا دیتی ہیں


شاخیں اگر گر رہی ہیں تو پتے بھی آیں گے

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آیں گے


شاخ سے جو گر جاۓ ہم وہ پتے نہیں

آندھیوں سے کہہ دو اپنی اوقات میں رہیں


کبھی درد ہے تو دوا نہیں

جو دوا ملی تو شفا نہیں

وہ ظلم کرتے ہیں اس طرح

جیسے میرا کوئی خدا نہیں


حرف حرف رٹ کر بھی آگہی نہیں ملتی

آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی

آدمی سے انسان تک آؤ گے تو سمجھو گے

کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی


ہنسنا آتا ہے مجھے، مجھ سے غم کی بات نہیں ہوتی

میرے باتوں میں مزاق ہوتا ہے، پر میری ہر بات مزاق نہیں کوتی


وقت سے پہلے حادثوں سے لڑاہوں

میں اپنی عمر سے کئی سال بڑا ہوں


خود سے جیتنی کی ضد ہے، مجھے خود کو ہی ہرانا ہے

میں بھیڑ نہیں ہوں دنیا کی، میرے اندر ایک زمانہ ہے


مل سکے آسانی سے اس کی خواہش کسے ہے

ضد تو اس کی ہے جو مقدر میں لکھا ہی نہیں


میں یوں تو بھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی

مگر جو زخم گھرے دیں وہ رو یے یاد رکھتا ہوں


کچھ وقت کی خاموشی ہے پھر شور آۓ گا

تمہارا صرف وقت آیا ہے ہمارا دور آۓ گا


گرتے ہیں سجدوں میں ہم

اپنی ہی حسرتوں کی خاطر اقبال

اگر گرتے صرف عشق خدا میں

تو کوئی حسرت ادھوری نہ رہتی

Post a Comment

Previous Post Next Post